شامی حکومت اور باغی دھڑوں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق

 29 Dec 2016 ( آئی بی ٹی این بیورو )
POSTER

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا ہے کہ شامی حکومت اور باغی دھڑوں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہے اور دونوں طرف امن مذاکرات کے لیے راضی ہو گئے ہیں.

یہ جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق جمعرات آدھی رات سے لاگو ہو جائے گا. روس اور ترکی دونوں ملک شام میں مختلف فریقوں کی حمایت کر رہے ہیں.

جہاں ترکی باغی دھڑوں کی حمایت کر رہا ہے تو وہیں روس صدر بشار الاسد کی قیادت والی شامی حکومت کی حمایت کر رہا ہے. شام میں پانچ سالوں سے زیادہ عرصے سے یہ جدوجہد چلا آ رہا ہے.

شام میں روس کی حکمت عملی کیا ہے؟ بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کے مطابق، روس کا شام کے ساتھ سوویت یونین کے زمانے سے اسٹریٹجک رشتہ رہا ہے. طویل شام کے ساحل پر روس کا ایک چھوٹا سا بحری اڈے رہا ہے اور شام کی فوج کے ساتھ روس کا مضبوط تعلق رہا ہے. روس شام کی فوج کو ہتھیار مہیا کرنے والا اہم سپلائر ملک ہے. شام روس کے مشرق وسطی کے علاقے میں اپنا اثر جمائے رکھنے کا آخری ذریعہ ہے.

مارکس کہتے ہیں، "اس رشتے نے ولادیمیر پوٹن کو شام میں کارروائی کرنے کے لئے اکسایا."

پر بڑا سوال یہ ہے کہ شام میں آخر دخل دینے کا روس کا مقصد کیا ہے؟ طویل روسی فوج پر نظر رکھنے والے اور جےمسٹان فاؤنڈیشن میں یوریشین امور کے سینئر فیلو راجر میک ڈرموٹ کا کہنا ہے، "عام طور پر شام میں روس کے دخل نے مبصرین کو متاثر کیا ہے. اس نے روس سے اتنی دور شام میں ایسے مشکل آپریشن کو اذام دینے کی روس کی صلاحیت کو ثابت کیا ہے. "

ولسن سینٹر کے قینان انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل كپھمےن کا ایک الگ ہی بات بتاتے ہیں. ان کا کہنا ہے، "روس نے اپنا نقصان کم کرنے کے مقصد سے زمینی کارروائی کے لئے دوسری قوتوں پر اعتماد کیا، جبکہ روس کے افسران یا تو مشترکہ کارروائی میں شامل ہوئے یا پھر فضائی حملے کیے."

وہیں میک ڈرموٹ کا کہنا ہے، "روسی فوج اسے اپنی نئی اور جدید ٹیکنالوجی کو پرکھنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے."

روسی فوج نے اپنے کچھ جدید طیارے شام میں تعینات کئے ہیں، لیکن یہی بات دوسرے جنگی سمانو کے لئے نہیں کہی جا سکتی ہے.

روس کی شام میں مداخلت سے روس کو سفارتی فائدہ بھی ملنے والا ہے. اس نے اسرائیل، ایران اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو نیا طول و عرض دیا ہے. اسرائیل اور روس کے درمیان ایک سمجھ بھی تیار ہوئی ہے.

میک ڈرموٹ تجزیہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں، "شام ایک طرح سے روسی فوج کی صلاحیتوں کی 'نمائش' کرنے کی جگہ بن کر رہ گئی ہے. امریکہ نہ صرف سفارتی طور پر برابری پر روس سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوا بلکہ شامی صدر بشار الاسد کو لے کر بھی اسے رخ تبدیل کرنا پڑا. امریکہ طویل اڑا تھا کہ اسد کو صدر کے عہدے چھوڑ دیں گے. امریکہ نے شرط رکھی تھی کہ کسی بھی بات چیت سے پہلے اسد کو اقتدار چھوڑنی ہوگی. شام میں روسی مداخلت کی وجہ سے امریکہ سے دشمنی اضافہ ہوا ہے. ''

 

(Click here for Android APP of IBTN. You can follow us on facebook and Twitter)

Share This News

About sharing

اشتہار

https://www.ibtnkhabar.com/

 

https://www.ibtnkhabar.com/

Al Jazeera English | Live


https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

Copyright © 2024 IBTN Al News All rights reserved. Powered by IBTN Media Network & IBTN Technology. The IBTN is not responsible for the content of external sites. Read about our approach to external linking