بھارت اور پاکستان میں پریس کی آزادی سنگین خطرے کے دور سے گزر رہی ہے

 03 May 2017 ( پرویز انور، ایم دی & سی یی ؤ ، آئی بی ٹی این گروپ )
POSTER

بھارت اور پاکستانی میڈیا میں بہت سے لوگ، بھارت کے مقابلے پاکستانی میڈیا کے طاقتور ہونے کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں.

ٹھیک اسی دوران، بھارت کے اعتدال پسند مانے جانے والے چینلز میں سے ایک این ڈی ٹی وی نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کا انٹرویو ڈراپ کر دیا.

این ڈی ٹی وی کی شریک بانی اور چیئرمین رادھکا رائے نے آن لائن اشاعت 'دی وائر' کو دیے ایک بیان میں کہا، '' جراحی ہڑتال کے مسئلہ پر سیاسی چھینٹا کشی، جس کے بغیر ثبوت کے کی جا رہی تھی، اس سے ہماری قومی سلامتی کو نقصان ہو رہا تھا. ''

پاکستانی صحافیوں کو بھی لگتا ہے کہ وہ زیادہ بہادر ہیں اور وہ حکومت کی حمایت کرنے والے بھارتی صحافیوں کے مقابلے میں اپنی حکومت کے حق سے الگ طرف رکھ سکتے ہیں.

اگرچہ اس بحث کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے. اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں پریس کی آزادی کی صورت حال بہت خراب ہے.

بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوریت ہے، باوجود اس کے 'رپورٹرز بداٹ سرحدوں' ادارے کی جانب سے 2017 میں شائع ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق، پریس کی آزادی کے پیمانے بھارت نچلے پايدانو پر ہے.

2017 میں شائع ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق، 180 ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا 136 واں مقام عکاسی کرتا ہے کہ ہندوستان میں پریس کی آزادی کی صورت حال مسلسل بگڑ رہی ہے.

بھارت ذمببوے اور میانمار جیسے ممالک سے بھی پیچھے ہے.

بے خوف صحافت کے معاملے میں ناروے، سویڈن اور فن لینڈ اول ہیں.

اس صورت میں چین 176 ویں اور پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے.

'رپورٹرز بداٹ سرحدوں' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے، '' بھارت میں پریس کی آزادی کو مودی کے قوم پرستی سے خطرہ ہے اور میڈیا خوف کی وجہ سے خبریں نہیں پرنٹ رہی ہے. ''

رپورٹ میں کہا گیا ہے، '' بھارتی میڈیا میں سیلف سنسر شپ بڑھ رہی ہے اور صحافی کٹر قوم پرستوں کے آن لائن بدنام کرنے کی مہمات کے نشانے پر ہیں. حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو روکنے کے لئے مقدمے تک کئے جا رہے ہیں. ''

بھارت میں 2015 میں چار صحافیوں کا قتل ہوا اور ہر ماہ کم از کم ایک صحافی پر حملہ ہوا ہے. بہت سے معاملات میں صحافیوں پر مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے درج کئے گئے. اس کا نتیجہ رہا ہے کہ صحافیوں نے خود پر سےشرشپ لگا لی.

میڈیا پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ دی هوٹ ڈاٹ ورج کی گیتا سےشو کہتی ہیں، '' ان حملوں کا دائرہ چونکانے والی ہے. قومی سلامتی کے نام پر کشمیر میں انٹرنیٹ اور اخبارات پر پابندی لگائی گئی. کارپوریٹ فراڈ پر ہتک عزت کے مقدمے، مقامی مافیا کے کرپشن کی خبر پر صحافیوں کی ہلاکتوں سے لكر چھتیس گڑھ میں سیکورٹی فورس کا آزاد صحافیوں کو ہراساں کیا کرنا اور جیل بھیجنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں. ''

بھارت کے کشمیر میں موجودہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے پریس کی آزادی پر کئی طرح کے لگام لگائے ہیں. صحافیوں کو کرفیو کے دوران پاس نہیں دیا گیا، صحافیوں پر حملے ہوئے، ریاست میں اخبارات کے پھیلاؤ کو روک دیا گیا اور کشمیر ریڈر نامی اخبار پر مکمل پابندی لگا دی گئی.

دنیا کے کسی دوسرے حصے میں اگر ایک اخبار پر پابندی لگائی جاتی تو اس پر ہنگامہ مچ جاتا، لیکن ہندوستانی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس کو نظر انداز کیا.

سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی اس پر لکھتے ہیں، '' آج عالمی پریس یوم آزادی ہے. بھارت 136 ویں اور پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے. بہت کچھ کہا جا چکا ہے. ان کا منتخب لوگوں کو سلام جو اب بھی آواز اٹھا رہے ہیں. ''

آپ کے اگلے ٹویٹس میں راجدیپ نے لکھا، '' سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں پریس آزادی کی عظیم روایت رہی ہے. بزنس ماڈلز اور ذاتی مفادات کی وجہ سے اس آزادی کا غلط استعمال ہوا ہے. ''

وہیں سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے فیس بک پر لکھا، '' ورلڈ پریس سوترتا دن دنیا کا سب سے بڑا چھلاوا ہے. پریس آزادی ایک متک اور عوام کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے. ''

انہوں نے لکھا، '' دنیا بھر میں میڈیا کارپوریٹ کے ہاتھ میں ہے جس کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ فائدہ کمانا ہے. واقعی کوئی پریس آزادی ہے ہی نہیں. ''

کاٹجو نے لکھا، '' بڑے صحافی بولڈ تنخواہ لیتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ پسند طرز زندگی کے عادی ہو گئے ہیں. وہ اسے کھونا نہیں چاہیں گے اور اس وجہ سے ہی احکام پر عمل کرتے ہیں اور تلووں چاٹتے ہیں. ''

پاکستان میں 2014 میں قتل کی نیت سے کئے گئے حملے میں بال بال بچے اور اب امریکہ میں رہ رہے پاکستانی صحافی رضا رومی کہتے ہیں، '' جہاں تک پاکستان کی قومی سلامتی کی بات ہے، انگریزی اخباروں میں تھوڑی جگہ مختلف خیالات کا اظہار کرنے کے ہو سکتی ہے، لیکن ٹی وی نیوز میں اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کافی خطرناک ہے. ادارے اس کی اجازت نہیں دیتی ہیں. ''

رومی ایک ٹی وی شو کی میزبان کرتے تھے اور انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی سے اختلاف جتائے تھے اور اقلیتوں کے حقوق کے مسئلے کو اٹھایا تھا.

بلوچستان میں انسانی حقوق کے معاملے پر رپورٹنگ کے دوران 2014 میں پاکستان کے جانے مانے اینکر اور صحافی حامد میر پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا تھا. تب میر کے بھائی نے ٹی وی چینل پر آکر اس حملے کے لئے پاکستانی فوج کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا.

ویسے جسمانی حملہ اور غیر پیچیدہ سےسرشپ- مسئلہ چھوٹا حصہ بھر ہیں، بھارت اور پاکستان میں میڈیا کو روکنے کی کوششیں بڑھتی جا رہی ہیں.

ٹیلی گراف اخبار میں مانني چٹرجی نے لکھا ہے، '' سنسر شپ-خود سنسر شپ، سچ پروپاگےڈا اور صحافت-ادھراشٹر لگن کے درمیان فرق کو شاید ہی کوئی جانتا سمجھتا ہو. ''

اتنا ہی نہیں، بھارت میں نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کی حکومت نے خبر تک صحافیوں کی رسائی کے طریقوں کم کر دیئے ہیں اور پی آر کو فروغ دیا ہے تاکہ میڈیا کی خبروں کو بہتر طریقہ سے کنٹرول کیا جا سکے.

پاکستان میں فوج کی جانب سے دباؤ زیادہ ہوتا ہے. پاکستان کی حفاظت سے متعلق پالیسیوں پر مسلسل لکھنے والی عائشہ صیقہ کے مضامین پاکستان میں کئی بار رجیکٹ کر دیئے جاتے ہیں اور وہ بھارت میں کہیں زیادہ چھپتی ہیں.

عائشہ صیقہ نے پاکستانی اخبار دی نیوز میں لکھا ہے، '' موجودہ وقت میں انٹر سروس پبلک ریلیشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہیں، فوج کی پی آر ایجنسی آج بڑے پیمانے پر ریڈیو چینل چلا رہی ہے، کئی ٹی وی چینلز میں حصہ داری ہے. فلم اور تھیٹر کے لیے فانےس کرتے ہیں. یہ صرف ادارہ expanses بھر نہیں ہے، بلکہ یہ ملک (پاکستان) کے میڈیا کی آواز کی تشکیل جیسا معاملہ ہے. "

پاکستان کے بلوچستان میں صحافیوں کو آزادانہ طور پر جانے کی اذاجت نہیں ہے. ایسے میں کس ملک کا میڈیا زیادہ آزاد ہے، اس بحث کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.

بھارت اور پاکستان، دونوں ممالک میں پریس کی آزادی سنگین خطرے کے دور سے ضرور گزر رہی ہے.

پاکستان میں جمہوریت کی حالت بھی ڈاواڈول رہی ہے، بڑے پیمانے پر پاکستان میں انتہا پسندی بھی پھیلا ہوا ہے، اس لئے پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا 139 ویں نمبر پر ہونا بہت چوكاتا نہیں ہے. یہ درجہ بندی پاکستان کے آزاد میڈیا کے دعوے سے مماثل نہیں ہے.

2016 کی رپورٹرز بداٹ سرحدوں کی اطلاع پاکستان کے بارے میں کہتی ہے، '' صحافیوں کو جو نشانہ بناتے ہیں، ان میں شدت پسند گروپ، اسلامک تنظیم، خفیہ ایجنسیاں شامل ہیں. یہ پریس کی آزادی میں رکاوٹ پہنچاتے ہیں. یہ سب ایک دوسرے سے قطع لڑ رہے ہوں، لیکن جیسے ہمیشہ میڈیا کو چوٹ پہنچانے کے لئے تیار رہتے ہیں. ایسے میں خبریں تنظیموں نے خود-سنسر شپ کو اپنا لیا ہے. ''

 

(Click here for Android APP of IBTN. You can follow us on facebook and Twitter)

Share This News

About sharing

اشتہار

https://www.ibtnkhabar.com/

 

https://www.ibtnkhabar.com/

Al Jazeera English | Live


https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/

https://www.ibtnkhabar.com/