سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ تیل کی پیداوار پر لیا گیا فیصلہ اوپیک + ممالک کے درمیان اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے اور سعودی عرب کا ماننا ہے کہ سال 2023 میں تیل کی پیداوار نہ بڑھانے کی اس کی موجودہ پالیسی درست ہے۔
یہ بیان اس لیے اہم ہے کہ روس پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد امریکا سعودی عرب پر تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
سال 2022 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تاکہ محمد بن سلمان کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادہ کیا جا سکے۔ تاہم اس کا اثر زیادہ دیر تک نہیں رہا اور سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا۔
یوکرائن کی جنگ کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے جی-7 ممالک کے ساتھ مل کر روسی تیل کی قیمتوں کی حد بھی لگا دی ہے تاکہ تیل کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی کو کم کیا جا سکے۔ روس او پی ئی سی پلس ممالک کی پیداوار میں اضافہ نہ کرکے زیادہ آمدنی حاصل کرے گا۔
روس تیل پیدا کرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک پلس کی قیادت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اوپیک ممالک میں سعودی عرب کا غلبہ ہے۔
لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا، "ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہم ایک مستحکم مارکیٹ کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم توقع نہیں کرتے کہ مارکیٹ کو 2023 کے آخر تک کسی پیداواری تبدیلی کی ضرورت پڑے گی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "او پی ئی سی اور او پی ئی سی پلس ممالک کے درمیان تمام فیصلے تمام شراکت داروں کے ساتھ وسیع مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔ او پی ئی سی پلس ممالک کے ریکارڈ پر دیے گئے تمام بیانات اتفاق رائے کی عکاسی کرتے ہیں۔"
(Click here for Android APP of IBTN. You can follow us on facebook and Twitter)
About sharing
کینیا کے صدر نے پرتشدد مظاہروں کے بعد متنازعہ فنانس بل واپس لے لیا...
ڈچ پیرنٹ کمپنی یَندےش کی روسی یونٹ فروخت کرتی ہے، جسے 'روس کا ...
ہندوستانی معیشت سال 2024 میں 6.2 فیصد کی رفتار سے ترقی کر سکتی ہے:...